What is Autism? Everyone should know about autism.

Autism or autism spectrum disorder (ASD) is a complex developmental disability; refer to a broad range of conditions characterized by challenges with social skills, repetitive behaviors, speech, and nonverbal commutation. ASD is defined by a certain set of behaviors and is a “spectrum condition” that affects individuals differently and to varying degrees.

There is no known single cause of autism, but increased awareness and early diagnosis/intervention and access to appropriate services/ support lead to significantly improved outcomes. Some of the behaviors associated with autism include delayed learning of language; difficulty making eye contact or holding a Conversation; difficulty with executive functioning, which relates to reasoning and planning; narrow, intense interests; poor motor skills’ and sensory sensitivities. Again, a person on the spectrum might follow many of these behaviors or just a few, or many others besides. The diagnosis of autism spectrum disorder is applied based on the analysis of all behaviors and their severity.


Autism’s hallmark signs usually appear by age 2 to 3. Often, it can be diagnosed as early as 18 months. Some associated development delays can appear even earlier.

In Pakistan Autism Point, an Autism Awareness Center going to spread awareness, support, advocacy, and help.

Read More
admin November 4, 2018 0 Comments

اسلامی نظریاتی کونسل: ’پاکستان میں بیک وقت تین طلاقوں کو قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے گا

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ بیک وقت تین طلاقوں کو قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے گا۔

بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سفارشات تیار کر لی گئی ہیں جو جلد ہی پارلیمان میں پیش کر دی جائیں گی۔

‘ہم اس پر بل تیار کر رہے ہیں جو وزارت قانون کو بھیجا جائے گا اور وہ اس پر سزا تجویز کرے گی۔ بیک وقت تین طلاقوں کی ممانعت کی جائے گی اور یہ قابلِ سزا جرم ہو گا۔‘

اس سوال پر کہ کیا بیک وقت تین طلاقیں دینے کی صورت میں طلاق ہو جائے گی تو قبلہ ایاز نے کہا: ‘طلاق تو ہو جائے گی تاہم اس سلسلے میں حتمی فیصلہ عدالت میں قاضی کرے گا۔‘

خیال رہے کہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے گذشتہ برس اگست میں طلاقِ ثالثہ کو غیر آئینی قرار دیا تھا تاہم اس کی سزا سے متعلق قانون کا مجوزہ بل تاحال انڈین پارلیمان سے منظور نہیں ہو سکا۔


اس بل کے مطابق بیک وقت تین طلاقیں دینے والے شخص کو تین سال قید کی سزا ہو گی، طلاق بھی نہیں ہو گی، خاتون کو گزر بسر کے لیے خرچ بھی دینا ہو گا اور شوہر پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

قبلہ ایاز نے گذشتہ سال نومبر میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ یہ کونسل سنہ 1962 میں اس وقت کے فوجی صدر ایوب خان کے دور میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے قیام کا مقصد حکومت کے ایسے قوانین کی توثیق کرنا تھا جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں اور وفاق اور صوبائی اسمبلیوں کو اسلام کے مطابق سفارشات دینا تھا۔

اسلامی نظریاتی کونسل ماضی میں عائلی قوانین خاص طور پر خواتین سے متعلق متنازع بیانات اور سفارشات کی وجہ سے زیرِ بحث رہی ہے۔

اس کونسل کے سابق سربراہ محمد خان شیرانی کو اپنے بیانات کی وجہ سے خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اپنے بیانات میں انھوں نے کہا تھا کہ خواتین کو ہلکا مارا پیٹا جا سکتا ہے، بچیوں کی شادی کی کم سے کم عمر نو سال ہونی چاہیے اور مردوں کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

کونسل کے موجودہ چیئرمین اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ کونسل ماضی میں صرف خواتین، شادی اور طلاقوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی۔

‘بد قسمتی سے یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ ہم نے صرف خواتین کو ہی موضوعِ بحث بنایا ہے لیکن ہم نے خواتین کے حقوق کے بارے میں سفارشات بھی مرتب کی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے معیشت، تعلیم اور ابلاغِ عامہ کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔‘

قبلہ ایاز نے مولانا شیرانی کے متنازع بیانات کو ان کی ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین معاشی سرگرمیوں کا فعال حصہ ہیں اور ‘عفت اور حیا کے دائرے کے اندر’ ان معاشی سرگرمیوں کا حصہ بننے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

قبلہ ایاز کا تعلق بنوں سے ہے۔ انھوں نے برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ اسلامیہ کالج پشاور کے وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پانچ کتب اور 22 علمی مقالے لکھے ہیں۔

ڈی این اے کو حتمی ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سائنسی ماہرین اور فقہا سے مشورہ کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ اس سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے کو ثبوتوں کے ایک جزو کے طور پر تو قبول کیا تھا مگر اسے حتمی ثبوت قرار دینے سے انکار کیا تھا۔

پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون کے غلط استعمال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ انھوں نے محکمۂ قانون کو ہدایت جاری کی ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کی سزا تجویز کی جائے۔

‘بد قسمتی ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ معاشرے میں جزباتیت کا پیدا ہونا ہے۔ نصاب اور میڈیا میں جذباتی میلانات کو کم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے جبکہ قانونی طور اس کی مثالی سزا ہونی چاہیے۔‘

لیکن اس قانون میں تبدیلی کے حوالے سے انھوں نے کہا ‘یہ قومی اور جذباتی منظرنامے کا حصہ بن گیا ہے، اس میں تبدیلی کی صورت میں ردعمل کے لیے حکومت بھی تیار نہیں، لیکن تمام تحفظات اس کے غلط استعمال کے حوالے سے ہیں۔‘

حال ہی میں پاکستان کی جانب سے سامنے آنے والے نئے قومی بیانیے میں ایک فتوے کے مطابق ریاست مخالف تمام تحریکوں، گروہوں اور کارروائیوں کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔

قبلہ ایاز کہتے ہیں: ‘افغانستان بھی اس فتوے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ افغان طالبان کے لیے بھی ہمارا مشورہ ہے کہ یہ گوریلا اور مسلح جنگیں 21 صدی میں نہیں چلتیں۔‘

انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان کے اندر یا باہر کوئی بھی گروہ اگر افغانستان میں حکومت یا ریاست کے خلاف کارروائی کرے گا تو وہ بھی غیر اسلامی ہو گی لیکن یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی اور دونوں جانب سے سرحدوں کا تحفظ کیا جائے گا۔

1800 علمائے کرام کی جانب سے جاری اس فتوے کے مطابق خودکش حملے، فرقہ واریت، ریاست کی اجازت کے بغیر مذہب کے نام پر جہاد کی ترغیب غیر اسلامی ہے۔

Read More
admin February 9, 2018 0 Comments