پاکستان کرکٹ
عمران خان کہتے ہیں کہ اسّی کی دہائی میں ویسٹ انڈین فاسٹ بولنگ دنیا کا خطرناک ترین اٹیک ہوا کرتی تھی۔ اگر دونوں اینڈ سے بہترین بولنگ ہو رہی ہو تو بیٹسمین کے پاس انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اسے رکنا پڑتا ہے اور انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کب یہ دو تھکیں گے اور دو نئے آئیں گے تو رنز بنانے کا کوئی موقع ملے گا۔
لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ ویسٹ انڈیز کے معاملے میں تو یہ تھا کہ ابھی دو تھکتے تھے اور دو نئے تیار کھڑے ہوتے تھے، جو پہلے دو سے زیادہ تیز اور خطرناک ہوتے تھے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان کے موجودہ بولنگ اٹیک کا بھی ہے۔ گو یہاں اسّی کی دہائی کے ویسٹ انڈین فاسٹ بولروں جیسا کچھ نہیں ہے لیکن اس اٹیک کا کومبی نیشن کچھ ایسا ہے کہ کریز پہ موجود بیٹسمین اننگز کے کسی بھی حصے میں نہ تو کھل کر کھیل سکتا ہے اور نہ ہی اس امید پہ صبر کر سکتا ہے کہ اگلے چینج پہ اسے کوئی رنز بنانے کا موقع ملے گا۔
جہاں عامر، جنید، رمان رئیس اور شنواری نئے بال کے ساتھ موجود ہوں، وہاں اچھے سے اچھے بیٹسمین کو بھی رکنا پڑتا ہے کہ فرسٹ چینج پہ شاید رنز بنانے کی دشواری کچھ کم ہو گی۔ لیکن جب فرسٹ چینج پہ حفیظ جیسا سپنر آ جائے تو بائیں ہاتھ کے بیٹسمین جائیں تو جائیں کہاں؟ اس پہ مستزاد یہ کہ دائیں ہاتھ کے بیٹسمین کو بھی بھلے وکٹ کا خطرہ نہ ہو، رنز نہیں ملتے۔
اگر حفیظ کے اوورز بھی گزر جائیں تو حسن علی آ جاتے ہیں جن کے پاس بے پناہ ورائٹی ہے۔ اب حسن علی سے رنز کیسے بٹورے جائیں جو اپنا پلان تو بناتے ہی نہیں، بیٹسمین کے پلان کو ہی کاؤنٹر کرتے ہوئے بولنگ کرتے ہیں۔ پرانے گیند کو ریورس بھی کر لیتے ہیں اور مڈل اوورز میں وکٹیں لینا تو ان کا خاصہ ہے۔
چلیں حسن علی کو بھی اگر اس امید پہ صبر سے کھیل لیا جائے کہ پانچواں فل ٹائم بولر بھی تو دس اوور پھینکنے آئے گا ہی۔ ان ساٹھ گیندوں پہ ہی ہو جائے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا۔ لیکن یاللعجب پانچواں بولر بھی ہے تو کون؟ شاداب خان، جس کے پاس نہ صرف گگلی ہے بلکہ وہ اسے بالکل ٹھیک وقت پہ استعمال کرنا بھی جانتا ہے۔
چلیں، مان لیا کہ یہ دنیا کا بہترین بولنگ اٹیک ہے، مگر کبھی کسی کا برا دن بھی تو ہوتا ہے۔ لیکن یہاں کیا کیا جائے کہ اگر کسی کا برا دن آ بھی جاتا ہے تو عماد وسیم ہیں، شعیب ملک ہیں۔ اور حفیظ کی صورت میں تو الگ ہی بونس ہے۔
اتوار کو شاداب کا برا دن تھا، دو اوورز میں انھوں نے 31 رنز دے دیے لیکن سرفراز کے پاس چوائسز کی ایسی بہتات تھی کہ اپنے پرائم سپنر کا کوٹہ پورا کروانا ان کی مجبوری نہیں بن پایا۔
اور اس سے سوا یہ کہ سرفراز جس طرح اس اٹیک کو استعمال کر رہے ہیں، وہ مختصر فارمیٹ کے کسی بھی کپتان کے لیے آئیڈیل ہو گا۔
پاکستان کے بینچ پہ اس وقت صرف یہ بہترین بولنگ اٹیک ہی نہیں ہے بلکہ انہی میں نہایت شاندار آل راؤنڈرز بھی موجود ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ وہ بڑے شاٹس کھیل سکتے ہیں بلکہ عمر اور تجربے کے اعتبار سے ان کی ذہنی پختگی بھی حیران کن ہے۔ پچھلے میچ میں جس طرح شاداب نے آخری دو گیندوں پہ پاکستان کو منجدھار سے نکالا اور آج فہیم اشرف نے جیسے آخری اوور کا بھرپور فائدہ اٹھایا، ایسے میں یہ ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی کہ یہ اس دور کے شاندار آل راؤنڈرز ہیں۔
بیٹنگ ہمیشہ پاکستان کی کمزوری رہی ہے۔ لیکن جب سے بابر اعظم آئے ہیں، پاکستان کے بیٹنگ یونٹ پہ کبھی اضطراب دیکھنے کو نہیں ملا۔ شعیب ملک اپنے کریئر کی بہترین فارم میں ہیں۔ فخر زمان اس سیریز میں ذرا مختلف دکھائی دیے لیکن چیمپیئنز ٹرافی جیسے گلوبل ایونٹ میں بھارت جیسے حریف کے خلاف میچ وننگ اننگز کھیل کر یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ بڑے میچ کے پلیئر ہیں۔
بھارت کے خلاف چیمپیئنز ٹرافی کے پہلے میچ کو منہا کر کے دیکھیں تو یہ یاد نہیں پڑتا کہ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران مختصر فارمیٹ میں کبھی ایسا بھی ہوا ہو گا کہ پاکستان ٹیم آل آؤٹ ہوئی ہو۔
اور اگر اس بہترین کومبی نیشن کو صحیح معنوں میں ہوم کرکٹ ملنا شروع ہو جائے، اگر یہ بھی پاکستان میں اتنے ہی میچز کھیلنے لگ جائیں جتنے بھارت کھیلتا ہے تو خدا جانے ان کی پرفارمنس میں اور کتنا نکھار آ جائے گا۔
پاکستان کرکٹ کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ آٹھ سال بعد یہاں وہی ٹیم کرکٹ کی بحالی کے لیے پہلا قطرہ ثابت ہوئی ہے جس پہ حملے کے سبب یہ سلسلہ ٹوٹا تھا۔ اگر پاکستان میں میچ ہونے لگ جائیں تو بہت جلد پاکستان کا دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہونے لگے گا۔ پچھلے چند ماہ کو دیکھیں تو پاکستان کرکٹ کے لیے ستے خیراں ہیں۔
سمیع چوہدری
کرکٹ تجزیہ کار